آج وہ اپنی تمام مصروفیات کو پس پشت ڈال کر درویش کے پاس پہنچا تھا..... جب اس کی باری آئی تو اس نے دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کیا بلاتمہید درویش سے دعا کرنے کو کہا ...... درویش نے نوجوان کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور بڑے جذب سے دُعا دی:
"اللہ تجھے آسانیاں بانٹنےکی توفیق عطا فرمائے"
دعا لینے والے نے حیرت سے کہا:
"حضرت! الحمد للہ ہم مال پاک کرنے کے لیے ھر سال وقت پر زکاۃ نکالتے ہیں، بلاؤں کو ٹالنے کے لیے حسبِ ضرورت صدقہ بھی دیتے ہیں.... اس کے علاوہ ملازمین کی ضرورتوں کا بھی خیال رکھتے ہیں، ہمارے کام والی کا ایک بچہ ہے، جس کی تعلیم کا خرچہ ہم نے اٹھا رکھا ہے، الله کی توفیق سے ہم تو کافی آسانیاں بانٹ چکے ہیں .....
درویش تھوڑا سا مسکرایا اور بڑے دھیمے اور میٹھے لہجے میں بولا:
"میرے بچے! سانس، پیسے، کھانا ... یہ سب تو رزق کی مختلف قسمیں ہیں، اور یاد رکھو "رَازِق اور الرَّزَّاق" صرف اور صرف الله تعالٰی کی ذات ہے.... تم یا کوئی اور انسان یا کوئی اور مخلوق نہیں ..... تم جو کر رہے ہو، اگر یہ سب کرنا چھوڑ بھی دو تو الله تعالٰی کی ذات یہ سب فقط ایک ساعت میں سب کو عطا کر سکتی ہے ، اگر تم یہ کر رہے ہو تو اپنے اشرف المخلوقات ہونے کی ذمہ داری ادا کر رہے ہو."
درویش نے نرمی سے اس کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھ میں لیا اور پھر بولا:
"میرے بچے! آؤ میں تمہیں سمجھاؤں کہ آسانیاں بانٹنا
کسے کہتے ہیں.....
*- کبھی کسی اداس اور مایوس انسان کے کندھے پے ہاتھ رکھ کر، پیشانی پر کوئی شکن لائے بغیر ایک گھنٹا اس کی لمبی اور بے مقصد بات سننا..... آسانی ہے!
*- اپنی ضمانت پر کسی بیوہ کی جوان بیٹی کے رشتے کے لیے سنجیدگی سے تگ ودو کرنا .... آسانی ہے!
*- صبح دفتر جاتے ہوئے اپنے بچوں کے ساتھ محلے کے کسی یتیم بچے کی اسکول لے جانے کی ذمہ داری لینا.... یہ آسانی ہے!
*- اگر تم کسی گھر کے داماد یا بہنوئی ہو تو خود کو سسرال میں خاص اور افضل نہ سمجھنا... یہ بھی آسانی ہے!
*- غصے میں بپھرے کسی آدمی کی کڑوی کسیلی اور غلط بات کو نرمی سے برداشت کرنا .... یہ بھی آسانی ہے!
*- چاۓ کے کھوکھے والے کو اوئے کہہ کر بُلانے کی بجائے بھائی یا بیٹا کہہ کر بُلانا..... بھی آسانی ہے!
*- گلی محلے میں ٹھیلے والے سے بحث مباحثے سے بچ کر خریداری کرنا..... یہ آسانی ہے!
*- تمہارا اپنے دفتر، مارکیٹ یا فیکٹری کے چوکیدار اور چھوٹے ملازمین کو سلام میں پہل کرنا، دوستوں کی طرح گرم جوشی سے ملنا، کچھ دیر رک کر ان سے ان کے بچوں کا حال پوچھنا..... یہ بھی آسانی ہے!
*- ہسپتال میں اپنے مریض کے برابر والے بستر کے انجان مریض کے پاس بیٹھ کر اس کا حال پوچھنا اور اسے تسّلی دینا ..... یہ بھی آسانی ہے!
*- ٹریفک اشارے پر تمہاری گاڑی کے آگے کھڑے شخص کو ہارن نہ دینا جس کی موٹر سائیکل بند ہو گئی ہو ...... سمجھو تو یہ بھی آسانی ہے!"
درویش نے حیرت میں ڈوبے نوجوان کو شفقت سے سر پر ھاتھ پھیرا اور سلسلہ کلام جارے رکھتے ہوئے دوبارہ متوجہ کرتے ہوئے کہا:
"بیٹا جی! تم آسانی پھیلانے کا کام گھر سے کیوں نہیں شروع کرتے؟
*- آج واپس جا کر باھر دروازے کی گھنٹی صرف ایک مرتبہ دے کر دروازہ کُھلنے تک انتظار کرنا ،
*- آج سے باپ کی ڈانٹ ایسے سننا جیسے موبائل پر گانے سنتے ہو ،
*- آج سے ماں کے پہلی آواز پر جہاں کہیں ہو فوراً ان کے پہنچ جایا کرنا.... اب انھیں تمہیں دوسری آواز دینے کی نوبت نہ آئے ،
*- بہن کی ضرورت اس کے تقاضا اور شکایت سے پہلے پوری کریا کرو ،
*- آیندہ سے بیوی کی غلطی پر سب کے سامنے اس کو ڈانٹ ڈپٹ مت کرنا ،
*- سالن اچھا نہ لگے تو دسترخوان پر حرف شکایت بلند نہ کرنا ،
*- کبھی کپڑے ٹھیک استری نہ ہوں تو خود استری درست کرلینا ،
میرے بیٹے! ایک بات یاد رکھنا زندگی تمہاری محتاج نہیں ، تم زندگی کے محتاج ہو ، منزل کی فکر چھوڑو، اپنا اور دوسروں کا راستہ آسان بناؤ ، ان شاء الله تعالٰی منزل خود ہی مل جائے گی ....!!!!
آئیں! صدقِ دِل سے دُعا کریں کہ الله تعالٰی ہم سب کو آسانیاں بانٹنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین ثم آمین یا رب العالمین.